Kodra – Parsi faal ke Asaateeri kilay me Gyarah Din

Author: Rashid Shaz

گیارہ دنوں کا یہ سفر نامہ ہماری گیارہ صدیوں کی تاریخ سے مملو ہے۔ تیسری، چوتھی صدی ہجری میں امت واحدہ کی باقاعدہ تقسیم کا سانحہ پیش آیا۔ مسلمان شیعہ سنی اسماعیلی اباضی جیسے طائفوں میں بٹ گئے۔ تب سے اب تک صدیاں گذریں، نہ جانے کیوں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اب قیامت تک اسی نظری خانہ جنگی کے ساتھ جینا ہے۔ یہ محض ایک خدائی انتظام ہے کہ بورل کے اساطیری قلعہ میں راوی کی ملاقات علی کو درا سے ہوتی ہے۔ کو درا ایک غیر معمولی شخصیت ہیں، انتہائی بیدار مغز اور دل پر سوز کے حامل ۔ وہ بیک وقت شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی۔ ان ان کی کی اسکر اس وفریک ‏(schizophrenic) ذات میں بیک وقت مختلف شخصیتیں رہتی ہیں ۔ وہ کبھی سنی نقطہ نظر چھاکے وکیل بن جاتے ہیں اور کبھی اہل بیت کی محبت میں سنیوں کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ بسا اوقات انہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ان کی بائی پولر بلکہ ملٹی پولر شخصیت مختلف فرقہ وارانہ شناختوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ کو درا گہرے آدمی ہیں، بلا تکان سوچتے ہیں اور سچ پوچھئے تو اسی فکر مسلسل نے انھیں اسکٹز وفرینیا کے عارضے مبتلا کر دیا ہے۔

یہاں آپ کی ملاقات ان اصحاب سے بھی ہوتی ہے جو فی الاصل قلعہ میں موجود نہیں ہیں۔ شیعہ عالم شیخ حسن فولادی اور سنی عالم شیخ الحذیفی کی نوک جھوک اور مناظرانہ گفتگو سے قاری کے قلب و نظر پر حیرت و استعجاب کے جھٹکے لگتے ہیں۔

بورل کی مجلسوں میں کبھی دل ڈوبتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اب اصلاح احوال کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اور کبھی تابناک مستقبل کی شاہراہ روشن دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ تعبیر کی اتباع میں گیارہ صدیاں ضائع ہو گئیں اب تجربے نے بتا دیا ہے کہ وحی کی مشایعت کے بغیر ہم کامران نہیں ہو سکتے۔

اس کتاب کے مطالعے کے دوران فرقہ وارانہ منافرت کی دیواریں گرتی معلوم ہوتی ہیں۔ شاید یہ پہلی تصنیف ہے جو شیعہ یا سنی موقف کو احق ثابت کرنے کے بجائے دونوں ہی کو پوری شدت سے مسترد کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ فرقوں کی بقا در اصل اسلام کی موت ہے۔

Order Now DOWNLOAD PDF

Order on Whatsapp