ہندوستانی مسلمان: ایامِ گم گشتہ کے پچاس برس

Author: Rashid Shaz

ہندستانی مسلمانوں کی پچاس سالہ تاریخ مجرمانہ خاموشی کی شرمناک داستان ہے۔سیکولر دانشور ہوں یا مذہبی علماء، ملی قائدین ہوں یا روحانی گدی نشین، یہ سب گذشتہ پچاس سالوں سے مداہنت کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ہم بحیثیت امت یہ بھول گئے کہ ہندوستان کی سرزمین میں جہاں 1947ء کی نئی سیاسی صورت حال نے ہمیں ایک اجنبی ملک کا باشندہ بنا دیا تھا اس میں ہمارے لیے زندگی جینے کا اگر کوئی جواز ہو سکتا تھا تووہ کیا تھا؟ نئے ہندوستان میں جہاں مسلمان ایک قوم کی محکومی سے نکل کر دوسری قوم کی سیاسی محکومی میں چلے گئے تھے وہاں ہماری اسٹریٹیجی کیا ہونی چاہیے تھی؟ ہم اس مسئلہ پر بھی گفتگو سے گریز کرتے رہے کہ نئے ہندوستان میں ہمارا ملی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔ گذشتہ پچاس برس میں ہماری ملی تاریخ میں عہد سیاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ایسا عہد جسے ہم ایام گم گشتہ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

من حیث الامت ہم زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار آخری سانس لے رہے ہیں۔ ہم ایک طرف توخود کو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کا داعی بتاتے ہیں لیکن دوسری طرف عملی طور پر ہم اپنی ساری قوت نظام کفر کے استحکام کے لیے وقف کیے دیتے ہیں۔ فکری اور نظری قیادت ہو یا منظم جماعتیں اور دینی گروہ، ہر کوئی ایک بے سمتی اور تضاد کا شکار ہے۔ ہمارے علماء و دعائیں تو دین کے غلبے کے لیے مانگتے ہیں لیکن فتوے کفار و مشرکین کو ووٹ دینے کے لیے جاری کرتے ہیں۔ گویا ہم جو کچھ کہتے ہیں خود اپنے اعمال سے اس کی پرزور تردید بھی کر رہے ہیں۔ ہم اس بات کے لیے تو آمادہ نہیں ہوتے کہ مسجد کی امامت غیرمسلموں کے حوالے کر دیں لیکن ان کی سیاسی اتباع میں ذرہ برابر بھی تکلف محسوس نہیں کرتے حالانکہ شریعت کی رو سے مسلمانوں کے امور کو غیرمسلموں کے ہاتھوں میں سونپنا قطعاً حرام ہے۔

راشد شاز

Order Now DOWNLOAD PDF

Order on Whatsapp